بامبے لیکس ڈیسک
ممبئی: آزاد میدان فساد کو لے کر 5 سال تک عوام کو لالی پاپ دینے والے ملزم نمبر 7 نام نہاد خودساختہ مذہبی شخصیت مسٹر معین اشرف عرف بابا بنگالی کا نام آزاد میدان فسادات سے نکالا نہیں گیا ہے ۔بلکہ بنگالی اب بھی ملزمان کی فهرست میں ملزم نمبر 7 کی جگہ درج ہے اور آزاد میدان کے فساد میں فسادیوں کے خلاف لگی کوئی سیکشن اور نہ ہی کسی ملزم کا نام اب تک نکالا گیا ہے ۔بلکہ معاملے میں بنگالی بابا سمیت ان سب لوگوں کے نام ہیں جن کے خلاف نامزد ایف آئی آر درج ہوئی تھی اور اس کا نام اس وقت تک رہے گا جب تک تفتیش مکمل نہیں هوگي ۔حالانكہ بنگالی بابا نے اس وقت کی حکومت سے لے کر اب تک کافی ہاتھ پاؤں مارا لیکن بنگالی بابا کی دال نہیں گلی اور بنگالی کا نام جوں کا توں ہے۔لہٰذا بنگالی نے لوگوں کے درمیان یہ شگوفہ چھوڑا کہ اس کی خود کی بہت اوپر تک پہنچ ہے اور وہ اس طرح کے فسادات سے اپنے آپ کو بچا کر سیدھے سادھے لوگوں جیل بھجوا سکتا ہے۔لیکن اس پورے معاملے کو لے کر Bombay Leaks نے جب تفتیش کی تو بنگالی بابا جھوٹا ثابت هوا۔آج بھی ممبئی کے سیشن کورٹ میں کیس نمبر 166/2015 میں موجود فائل میں بنگالی بابا کا بھی نام اہم فسادیوں کی فہرست میں درج هے۔بنگالي بابا پر فسادات کے ساتھ ساتھ قتل کا بھی معاملہ درج ہے۔ Bombay Leaks کے ہاتھ لگے ددستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ بنگالی بابا نے اس وقت کی حکومت کے رہتے ہوئے کوشش بہت کی کہ ایف آئی آر اور چارج شيٹ سے اس کا نام نکال کر ان لوگوں کا نام ڈال دیا جائے جنہیں بنگالی نے فساد کرنے کے لئے بلایا تھالیكن بنگالی بابا کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو پائی اور بنگالی کانام نکلنے سے پہلے ہی کانگریس حکومت ہی اقتدار سے نکل گئی۔
گزشتہ پانچ سالوں سے پولیس نےان هزاروں ملزمان میں سے ان کو جو غریب اور کمزور تھے ان کے خلاف ثبوت بھی ڈھونڈ نکالا، انہیں گرفتار بھی کیا ۔لیکن بنگالی بابا سمیت جن 17 لوگوں کے خلاف نامزد ایف آئی آر درج کی گئی انہیں آج تک گرفتار نہیں كر سكي همیشہ دیکھا گیا ہے کہ پولیس جن ملزمان کے نام ایف آئی آر میں درج کرتی ہے ان پر پہلے کارروائی کرتی ہے۔ لیکن اس معاملے میں مکمل کھیل الٹا رها۔جبكہ اس معاملے میں قتل جیسی سنگین دفعات لگائی گئی تھیں۔واضح رہے فسادات کے دوران غائب ہوئے پولیس کے ہتھیار ممبرا سے ملے تھے جہاں ممبرا میں ہی بنگالی کا مدرسہ ہے۔اس لئے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بنگالی کے مدرسے کے بھی نوجوان اسمیں شامل تھے جو بنگالی کے اشارے پر فسادات کرنے پہنچے تھے۔
فساد کب ہواتھا؟
11 اگست 2012 کو ممبئی کے آزاد میدان فساد کو انجام دیا گیا۔ اس فساد کو انجام دینے کے لئے مذہب کے نام نہاد ٹھیکیدار اور نام نہاد مسلم لیڈروں نے ٹھیکیداری لی تھي جسكے بعد معاشرے کے ٹھیکیداروں کی اپیل کے بعد مسلم نوجوانوں کو برما اور میانمار کی تصویر اور ویڈیو دکھا کر جم کر فساد کرنے کے لئے اکسایا گیا اور انہوں نے ان ٹھیکیداروں کے ناپاک ارادے کو انجام دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔اس معاملے میں ممبئی کے اس وقت کے آزاد میدان سینئر پی آئی دیپک ڈھولے کی شکایت پر تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت قتل، فساد بھڑکانے، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، خواتین پولیس اہلکاروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے ساتھ ساتھ 20 سے زیادہ دفعات کے تحت 4017 لوگوں کے خلاف FIR درج کی گئی تھی۔ 4017 لوگوں میں 17 لوگوں کے خلاف نامزد FIR درج کی گئی تھي اس معاملے کی شدت کو دیکھتے ہوئے تحقیقات کے لئے ممبئی کرائم برانچ کو مقرر کیا گيااس پورے معاملے کو لے کر 1000 سے بھی زیادہ لوگوں کی گواہی ریکارڈ کی گئی ان میں ممبئی پولیس کے ادنیٰ سے اعلیٰ پولیس اہلکاروں اور اعلیٰ افسران کے بیان بھی قلمبند کئے گئے۔
کرائم برانچ کی تحقیقات کے چار ماہ بعد ہی اس معاملے میں 3،384 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ داخل کیا گیا ،جس میں 57 لوگوں کو ملزم بنایا گیا تھا۔غیر سرکاری تنظیم مدینتہ العلم کے سیکرٹری جنرل رضا کو قتل، سازش، فساد بھڑکانے، عوامی اور ذاتی املاک کو نقصان پہنچانے اور غیر قانونی طور پر اجتماع منعقد کرنے کا ملزم بنایا گیا ۔اس صورت میں چارج شیٹ داخل ہونے تک 50 سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا گياتھاان میں سے چار ملزمان کو خواتین پولیس اہلکاروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا ملزم بنایا گیا۔
میانمار میں مسلمانوں پر مبینہ تشدد کے خلاف آزاد میدان میں ریلی کا انعقاد کیا گیا تھاآزاد میدان میں بھیڑ کو جمع کرنے کے لئے ممبئی اور آس پاس کے علاقوں میں جمعہ کے دن مساجد میں اعلان کیا گیا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ بھیڑ جمع کی جاسکے اور اس بھیڑ کا اندازہ ممبئی پولیس کو بالکل بھی نہیں تھا یہاں تک کہ پولیس کو یہ تک نہیں پتہ چل سکا کہ اس ریلی کی فنڈنگ کہاں سے ہوئی تھي ۔پھوٹ پڑے تشدد میں دو افراد کی موت ہوگئی تھی اور 65 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔اس میں 2.72 کروڑ روپے کی سرکاری املاک کا نقصان ہوا تھا۔پولس نے آزاد میدان تشدد کے تقریبا چار ماہ بعد اس معاملے میں ریلی کے آرگنائزر مولانا احمد رضا کو گرفتار کیا تھا۔
فساد کے تارکراچی سے جڑے تھے
اس صورت میں ممبئی کے آزاد میدان میں ہوئے فساد کے سلسلے میں ایک سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے انٹیلی جنس بیورو نے مہاراشٹر حکومت کے وزارت داخلہ کو اطلاع دی تھی کہ آزاد میدان میں فساد کے پیچھے انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم کا کردار تھا۔ وزارت کے ایک سینئر افسر کے مطابق اطلاعات و نشریات کی وزارت کی یہ اطلاع بین الاقوامی ٹیلی فون بات چیت کی ریکارڈنگ کی طرف سے جمع جانكاري کی بنیاد پر تھا۔اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ آزاد میدان میں کیسے تشدد پھیلائی گئی ۔اتنا ہی نہیں رپورٹ میں یہ بھی صاف کیا گیا تھا کہ اس فساد میں کس کی سازش تھي انٹیلی جنس بیورو نے یہ رپورٹ مہاراشٹر کے وزیر داخلہ آر آر پاٹل کو دی تھي آپكو بتاتے چلیں کہ واقعہ کے ایک دن بعد ہی مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ پرتھوی راج چوهان نے میڈیا سے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے اس فساد کی سا زش بیرون ملک رچی گئی هو۔ٹیلی فون پر ریکارڈ کی گئی بات چیت اس بات کا پختہ ثبوت بن گیا تھا کہ اس تشدد کے پیچھے غیر ملکی دہشت گردوں کا ہاتھ تھا۔ آئی بی کے جن افسروں نے اس بات چیت کا مطالعہ کیا ہے انہوں نے ٹیلی فون نمبرس اور بیرون ملک بیٹھے نامی انڈرورلڈ ارکان کی آوازوں کی نشاندہی کی تھي بین الاقوامی ٹیلی فون کالز کاتجزیہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے دو شہروں سے ممبئی میں موبائل فون پر کال کیا گیا تھا۔كچھ کالز 10 ؍ اگست کو کی گئی جبکہ زیادہ تر کالز 11 اگست کو کی گئی تھي قابل ذکر ہے کہ 11 ؍اگست کو آزاد میدان میں فسادات ہو ا تھا۔ریكارڈ شدہ فون کالز سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان سے فون کر کسی گینگ کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ تشدد پھیلائے ۔انهیں فون پر گائیڈ کیا گیا کہ وہ مظاہرین میں گھل مل جائیں اور صحیح وقت کردیکھ تشدد شروع کر دیں۔افسران کی مانیں تو اس تشدد کا مقصد شہر میں لوگوں کے دلوں میں خوف و ہراس پھیلانا اور شہر کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ فساد کرواناتھا۔
بنگالی نے خود کو کلین چٹ کی افواہ اڑائی تھی
اس بات کا کہ اہم ملزمان نے اس وقت کی حکومت سے سانٹھ گانٹھ کر ایسی افواہ اڑائی کہ ان کا نام ملزمان کی فهرست سے ہٹا دیا گیا هےقوم کی ٹھیکیداری کرنے والے دھندے باز كٹھ ملے، رہنما، اور معاشرے کو بہتر بنانے کا بیڑا اٹھانے والے وہ لوگ جن کے خلاف آزاد میدان فسادات میں نامزد ایف آئی آر ہوئی تھی انہوں نے آزاد میدان سے لے کر معاملہ کورٹ میں پہنچنے تک اپنا نام بڑا ہی صفائی سے اس ایف آئی آر سے غائب کر وانے کی افواہ اڑائی جسے خود آزاد میدان پولیس تھانے کے سینئر پی آئی دیپک ڈھولے کی شکایت پر درج کر ان 17 لوگوں کے خلاف نامزد ایف آئی آر درج کی گئی تھي ۔حالانكہ فسادات کے معاملے میں ملزمان کی طرف سے قانونی جنگ لڑنے والے ایڈووكیٹ وہاب خان کا کہنا ہے کہ ان 17 لوگوں کے نام پولیس کی غلطی کی وجہ سے لکھے گئے ہیں ۔لیکن یہ بات بھی جھوٹی تب ثابت ہوئی جب ممبئی کرائم برانچ کے ایک سینئر افسر جنہوں نے فساد کی تفتیش کی تھی انہوں نے معلومات دیتے ہوئے بتایا کہ چارج شیٹ میں جن ملزمان کے نام کورٹ میں داخل کئے گئے ہیں اس کے علاوہ اس میں دیگر ملزمان کے بارے میں بھی لکھا گیا جن کی اب تک گرفتاری نہیں هوئی ،کیونکہ جن ملزمان کو ممبئی کرائم برانچ نے گرفتار کیا ان میں زیادہ تر کے بیان ہیں کہ انہوں نے مسجد میں اعلان سنا اس کے بعد آزاد میدان پہنچے جبکہ کچھ لوگوں کو سوشل سائٹوں کےذریعہ اور کچھ لوگوں کو ان کے دوستوں کے ذریعے پتہ چلا۔
فسادیوں کے ساتھ کانگریس کامسلم ووٹ بینک کا چکر
کرائم برانچ کی تحقیقات کے بعد بنگالی بابا سمیت ان 17 افراد جن کے نام ایف آئی آر میں تھے ان میں بہت سے لوگوں کی گرفتاری ممکن تھی لیکن اس دوران اس وقت کی حکومت نے پھر مسلم ووٹ بینک کو برقرار رکھنے کے لئے بنگالی سمیت ان سارے لوگوں کو گرفتاری سے بچا کر ایسے مسلم نوجوانوں کا نام ملزمان کی فہرست میں پہلے لکھ دیا جو بنگالی بابا جیسے آقاؤں کے ذریعہ جمعہ کے دن مسجد میں اعلان سننے کے بعد آزاد میدان پہنچے تھے اور وہاں ننگا ناچ کیا۔
اگرچہ یہ وہی لوگ ہیں جو ان 17 لوگوں کے بلانے پر ہی آزاد میدان پہنچے تھے لیکن جب مصیبت آئی تو مذہب کے ٹھیکیداروں نے اپنے آپ کو ایسے بچا لیا کہ نامزد ایف آئی آر ہوتے ہوئے بھی اس وقت حکومت سے سانٹھ گانٹھ کر لی اور گرفتاری ان کی ہوئی جن کے گھروں میں دو وقت کی روٹی کھانے کے لالے پڑ رهےتھے۔اس طرح آزاد میدان فسادات کے اہم ملزمان کی فہرست میں شامل آزاد میدان فسادات کے ملزم نام نہاد خودساختہ مذہبی ٹھیکیدار مسٹر معین اشرف عرف بابا بنگالی لوگوں کے درمیان خود کا دامن پاک صاف بتا کر اور خود کو فسادات سے مختلف کہہ کر اپنا نام ملزمان کی فہرست سے نکالنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ سراسر جھوٹ ہے بلکہ وہ فسادات کے اہم ملزمان میںسے ایک ہے جس پر اس وقت کی حکومت اس لئے مہربان تھی کہ اسے اس شرط پر مہلت دی جائے گی کہ بنگالی بابا ووٹ بینک کے ذریعہ سركار کی حمایت كرےگا ۔ لیكن جب حکومت ہی نہیں رہی اور موجودہ حکومت کو اس کے ووٹ بینک کی ضرورت ہی نہیں تو اب اس کے سر پر پھر ایک بار مصیبت منڈلانے لگی ہے ۔ بی جے پی حکومت کو نہ تو اس کے جیسے ریاکار کی ضرورت ہے اور نہ اس طرح کے منافقانہ فسادیوں کے سہارے انتخابات کے میدان میں اترے گی۔
کیا کہتے ہیں اعلیٰ افسران
سابق آئی پی ایس افسرایس ایس سوراڈكر کا کہنا ہے کہ فسادات میں تو اصل لوگ اب بھی پولیس کی پہنچ سے باہر ہیں اور ان پر پیچ کسنا ضروری ہے لیكن جس طرح پولیس نے گرفتار نوجوانوں پر ہی قتل کی دفعات لگا دیا ہے یہ بھی ناانصافی ہے۔ اس طرح سے پولیس نے جو کیا یہ وہی بات ہو گئی کہ کسی چیز کو ختم نہیں بلکہ اس طرح ناانصافی کرنے سے اسے فروغ دیا جا رہا ہے۔پھر تو سیدھا سادھا آدمی بھی جس کا کوئی گناہ نہ ہو اور اس پر قتل کا دفعہلاد دیا جاتا ہے تو ہمیں پھر ان سے سدھرنے کی توقع نہیں رکھنی چاہئے ۔ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ہم دہشت گردی کوختم کرنے کے نام پر اس کوفروغ دے رہے ہیں۔
وہیں آزاد میدان فساد کے تفتیشی افسر اس وقت کے اے سی پی اور موجودہ ڈپٹی کمشنر یشونت وٹكر نے بتایا کہ یہ محض افواہ ہے کہ بنگالی بابا سمیت ان 17 لوگوں کے نام نکال دیے گئے ہیں جن کےخلاف نامزد ایف آئی آر ہوئی ہے بلکہ وہ لوگ معاملے میں اہم ملزم ہیں اور انکوائری کا دائرہ جیسے جیسے سخت ہوگا تو ان پر بھی کارروائی ہوگی وہ چاہے کوئی بھی ہو۔
ایڈووكیٹ وہاب خان نے Bombay Leaks سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک ملزم فہیم ہے جس دن معاملے کی سماعت رہتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے آنے سے نقصان ہوگا اور میرے خاندان کا نقصان ہوگا کیونکہ کوئی اور کمانے والا نہیں ہے اور یہی حال ہر ملزم کا ہے۔
اگرچہ موجودہ حکومت کے آتے ہی بنگالی نے ٹیم بدل کر ان کی چاپلوسی کرنے کی کافی كوشش کی لیکن موجودہ حکومت نے اس کے کردارکو دیکھ کراس کو بھائو نہیں ديا۔اس بات کو دیکھ کربنگالی نے موجودہ حکومت کی چاپلوسی کے لئے ایک اور داؤ کھیلا لیکن کامیاب نہ ہو سكا۔بنگالي نے خود کو مسلمانوں کا رہنما قرار دے کر یہ اپیل کی کہ اس بار 15 اگست کو مسجد اور مدرسے میں ترنگا لہرایا جائے۔جسكو لے کر مسلم علما میں اور معاشرے میں زبردست ناراضگی پائی گئی ۔کیونکہ بنگالی کی اپیل کے بعد کوئی محب وطن کا سرٹیفکٹ اس سے کیوں لے ۔ آزادی کے بعد سے ہی مسلمان ہر جگہ آزادی کی خوشیاں مناتے ہیں جس کے بارے میں شاید بنگالی کو پتہ ہی نهيں ۔ وهيں دوسری طرف مولاناعبد السلام قاسمی نے کہا کہ کل کا آیا ہوا بنگالی اب مسلمانوں کو حب الوطنی سکھائے گا اگر اتنا ہی ہمدرد ہے تو جائے حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر پر ترنگا لہرا کے دکھائے۔
اس فساد کے ہی دن ریاست کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے حج ہاؤس میں افطار پارٹی رکھی گئی تھی اور فسادات کی وجہ سے اس وقت کے مائنارٹی منسٹر عارف نسیم کی کرسی خطرے میں آگئی تھی نسیم خان نے ان 17 لوگوں میں سے مذہب کے ٹھیکیدار آزاد میدان فسادات کے ملزم نام نہاد مذہب ٹھیکیدار مسٹر معین اشرف عرف بابا بنگالی کو فونپر جم کر کھری کھوٹی سنائی تھی اور طویل عرصہ تک بنگالی بابا کو دور رکھا اور بات چیت بند کر قریب پھٹكنے نہیں ديا۔لیكن نئی حکومت آنے کے بعد عارف نسیم خان بنگالی بابا کےذریعہ اس قبضہ کی گئی متنازعہ جگہ پر آ رہے ہیں جس کو لے کر بنگالی بابا کی بہت تھو تھو ہوئی هے۔اب وہ سارے لوگ جن کے سروں پر حکومت کی طرف سے بحران کے بادل منڈلا رہے ہیں وہ ایک ہو رہے ہیں اور اس امید پر ہیں کی سیاست کی اس دنیا میں وہ مذہب اور نفاق کا چولا پہننے والوں کے ساتھ ہوں گے تو شاید حکومت کی طرف سےبحران کے بادل چھٹ جائیںگے۔حالانکہ عارف نسیم خان نے Bombay Leaks سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ان کے اور بنگالی کے رشتوں میں كڑواهٹ تھی لیکن اب نہیں ہے۔
دراصل بنگالی بابا آزاد میدان ریلی کے پہلے ایم ایل سی بننے کا خواب دیکھ رہا تھا لیکن فساد کے بعد ایم ایل سی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور خواب کا احساس ہونے سے پہلے ہی ریاست اور مرکز دونوں جگہ سے کانگریس کا اقتدار ہی ختم ہو گیا۔ بنگالی دوبارہ اپنے اس کردار کے لئے کانگریس کا دامن چھوڑ بی جے پی کے تلوےچاٹنے شروع کر دیے۔ لیکن پڑھے لکھے نہ ہونے کی وجہ سے بھائو نہیں مل رہا ہے۔اس وقت بی جے پی سے مائنارٹی شعبہ کے صدر حیدر اعظم اور اشيش شیلار کا دامن تھامے ہوئے تھے لیکن اب اشيش شیلار نے جب بنگالی کا مفاد اور اصلیت جان لی تو انہوں نے اپنا دامن چھڑا لیا لیکن بنگالی نے اس کمی کو پوری کرنے کے لئے اوراپنا مستقبل بنانے کے لئے راج پروہت کی جی حضوری کرنی شروع کر دي۔ بنگالی کو یہ بات کون سمجھائے کہ راج پروہت کو خود بی جے پی کتنی اہمیت دیتی ہے جو وہ بنگالی کو لیڈر بنائیںگے۔يهي وجہ ہے کہ بنگالي بابا کے حالیہ پروگرام میں حیدر اعظم اور راج پروہت دونوں وزیر اعلیٰ کو بلانے میں ناکام رہے ۔کیونکہ وزیر اعلیٰ کے پاس اسٹیٹ انٹیلی جنس کی اطلاع پہنچ چکی تھی جس میں بنگالی کا کچا چٹھا موجود ہے۔
چونکہ اس وقت حکومت کامسلم چہرہ کوئی نہیں تھا اور بنگالی کو کانگریس حکومت بطور مسلم سامنے لاکراستعمال کر رہی تھی اور بنگالی اس خواب میں جی رہے تھے کہ ان کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے اور اسی غلط فہمی میں مسلمانوں کا ایک طبقہ جی رہا تھا کہ کانگریسی بنگالی کے دربار میں آتے ہیں تو واقعی میں یہ بہت پہنچی ہوئی ہستی ہوں گی۔ اور لوگوں کی اس سوچ کو لے کر حکومت یہ سوچتی تھی کی ان کے پاس ووٹ بینک کافی هے۔لیكن ان کا بھی بھانڈا تب پھوٹا جب بنگالی اپنے بھائی سید علی اشرف عرف بابا بھونكالي کو ممبرا سے جتانے میں کامیاب نہ ہو سكا ۔ جس سے سیاسی گلیاروں میں بنگالی کو لے کر جو ووٹ بینک کا بھرم تھا وہ بھی ٹوٹ گیا تھا۔ فساد کے وقت بنگالی کی پول کھولنے والی بی جے پی حکومت کے ترجمان مادھو بھنڈاری نے کہا کہ وہ جلد ہی اس معاملے میں ریاست کے وزیر اعلیٰ سے مل کر بنگالی کے خلاف کارروائی کا بگل بجائیںگے۔
اب جس طرح سے محکمہ پولیس کے اعلیٰ افسران، ہاری ہوئی حکومت کے ایم ایل اے امین پٹیل، عارف نسیم خان، بابا صدیقی بنگالی کے پاس پهنچ رہے ہیں اور وہ اس بات کی آس لگائے بیٹھے ہوئے ہیں کہ بنگالی کے مسلم چہرے کو ویسے ہی استعمال کریں گے جیسے ان کے اقتدار کے وقت استعمال کرتے آئے ہیں اور بنگالی بابا ایسا کوئی کرامت کردیں گے جس سے پھر سے کانگریس کی سركار ریاست میں آجائےگي تو پھر سے ان کی چاندی ہو جائےگي ۔لیکن حکمراں بی جے پی کی طرف سے بنگالی بابا کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کیونکہ بی جے پی کو اس بات کا پتہ ہے کہ مسلما ن بی جے پی کو ووٹ تو دیں گے نہیں تو انہیں بنگالی بابا جیسے چہرے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ لیکن سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ آخر پولیس محکمہ کے سینئر افسران اور بی جے پی کے ایک دو لیڈر بنگالی کے پاس پہنچ کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ مکمل طور پر آزاد میدان فساد کا واقعہ بھول چکے ہیں؟ کیاخواتین پولیس اہلکار کے ساتھ جو واردات انجام دی گئی ممبئی پولس نے اسے نظر اندازکردیا؟ کیا اس طرح کے بنگالی بابائوں کے اشارے پر اس طرح کے فسادات ہوتے رہیں گے اور پولیس صرف لاچار نظرآئے گی؟ آخر حکومت نے آئی بی کی رپورٹ پر دھیان کیوں نہیں دیا؟ فساد کے دوران، اس وقت کی حکومت کا مسلمان گاڈ فادر کون تھا؟ جس نے فسادات کی آڑ میں بنگالی کو فرنٹ پر رکھ کر اپنی روٹی سینكنے کی کوشش کی؟ جب ایل کے اڈواني کے خلاف بابری مسجد معاملے میں دو دہائیوں کے بعد کارروائی شروع ہوئی تو کیا بنگالی پر کارروائی ہونے کے لئے 2 دہائی کا انتظار کریں گے؟ یہ سوال ایسے ہیں جن کا جواب اس عوام کو چاہئے جو فسادیوں کے ظلم کا شکار ہوئی ہے جس کا سرغنہ بابا بنگالی تھا۔
Post View : 61