عبدالغفار سلفی، بنارس
بہار میں جو کچھ ہوا اس پر ہر طرف خوب تبصرے ہو رہے ہیں. سوشل میڈیا پر تو جیسے تبصروں اور تجزیوں کی باڑھ سی آ گئی ہے. ہمارے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ہم بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں. ہمارا خیال تو یہ ہے کہ اس پورے معاملے میں ہمیں اس بات کا صدقِ دل سے اعتراف کر لینا چاہیے کہ ملکی سیاست میں آر ایس ایس جس تیزی کے ساتھ حاوی ہو رہی ہے اور جس کامیابی کے ساتھ ان قلعوں میں بھی سیندھ لگا رہی ہے جہاں کبھی اس کا کوئی وجود نہ تھا یہ سب اس کی کامیاب منصوبہ بندی اور اس کے لاکھوں ورکرز کی انتھک محنت اور لگن کا نتیجہ ہے. آپ غور کیجیے پورے ملک میں نام نہاد مودی لہر کے باوجود ملک کے دو اہم صوبائی انتخابات میں بی جے پی کی شرمناک ہار ہوئی، ایک دلی اور دوسرے بہار. شکست خوردہ ذہنیت ہوتی تو ہار مان کر کب کا چپ چاپ بیٹھ جاتی مگر آر ایس ایس نے یہ بتا دیا کہ گر کر ابھرنا کس کو کہتے ہیں. یہ اسی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ دلی میں حالات ایسے بن چکے ہیں (یا یوں کہیے کہ بنا دیے گئے ہیں) کہ اگلی بار وہاں کیجریوال کا جیت پانا لگ بھگ ناممکنات میں سے ہے اور اس بات کی قوی امید ہے کہ بی جے پی آ جائے گی. دوسری طرف بہار میں بڑی شان اور طمطراق سے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا مہاگڈبندھن قائم ہوا اور بی جے پی کو شکست فاش دینے میں کامیاب بھی ہوگیا مگر بیس مہینے بھی پورے نہیں ہوئے کہ نہ صرف اس گڈبندھن کی ہوا نکل گئی بلکہ بی جے پی نے اپنی سرکار بھی بنا لی. اسے کہتے ہیں میرے بھائیو! منصوبہ بندی. کیرل اور بنگال جیسے صوبے جہاں آر ایس ایس کا کوئی وجود تھا نہ کوئی زمینی حیثیت ، اب وہاں بھی ان کے کارکنان اپنی محنت سے ایسی فیلڈ بنا چکے ہیں کہ اگلے انتخابات میں اس کا واضح اثر نظر آئے گا.
ہم سوشل میڈیا پر بیٹھ کر نتیش کمار کو جتنی بھی صلواتیں سنائیں، لالو یادو کے جتنے بھی قصیدے پڑھیں اور ان کے سیکولر ہونے کا جتنا بھی ڈھنڈورا پیٹیں، سچ تو یہ ہے کہ آر ایس ایس اپنے منصوبے میں کامیاب ہو چکی ہے. جمہوریت کے چاروں ستونوں پر آج ان کا راج ہے. حکومت میں ان کے لوگ ہیں، پارلیمنٹ میں انہی کی اکثریت ہے، میڈیا ان کی گود میں ہے ، لے دے کر عدلیہ بچی ہے اب اس میں بھی بڑی چابکدستی سے مہرے بچھائے جا رہے ہیں.
اور ہم بیس بائیس کروڑ مظلوم و معصوم لوگ جنہیں یہ طرہ اور ناز ہے کہ ملک کی اکثریت ابھی بھی انصاف پسند اور غیر متعصب ہے اور ہمارے ساتھ ہے، چپ چاپ تماشائی بنے اس بات کے منتظر ہیں کہ دیکھیں اب ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے اور کسی سمت سے ہمارے بھی حق میں ہمدردی اور تائید کے دو بول سنائی دیتے ہیں یا نہیں ، اور ویسے بھی ہمارے پاس مذمتیں کرنے اور افسوس ظاہر کرنے کے سوا کوئی کام بچا نہیں ہے سو ہم وہی کر رہے ہیں . ملک کے آنے والے حالات کیا ہوں گے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن مستقبل کا مورخ جب اس دور کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو یہ ضرور رقم کرے گا کہ ایک قوم جب اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہی تھی تو دوسری قوم بے عملی کی مورت بنی صرف اور صرف یاس و قنوط کے آنسو بہا رہی تھی.
Post View : 103